حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ کے معروف مدرسہ حجتیہ میں العزم علمی ثقافتی مرکز کے زیر اہتمام چراغ راہ بصیرت کے عنوان سے سلسلہ وارتیسری علمی و تجزیاتی نشست کا انعقاد اخباریت و ملنگیت کے انحرافات و خرافات کے موضوع پر ہوا۔
نشست کا آغاز حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر مجتبیٰ رضوی نے خدا کی پاک و پاکیزہ کتاب قرآن مجید کی تلاوت سے کیا اس کے بعد ناظم جلسہ حجت الاسلام والمسلمین مولانا فصاحت حسین نے منظوم کلام کے لئے حجت الاسلام والمسلمین مولانا مدبر حسین رضوی کو دعوت دی موصوف کے منتخب اشعار کچھ اس طرح تھے؛
کتنے آئے اور یوں دنیا سے بیگانے گئے
بالمقابل صبر کے کچھ جانے انجانے گئے
خاک میں ہستی ہماری مل گئی ہوتی مگر
ذکر اہل بیت سے ہم لوگ پہچانے گئے
دیمک کی طرح دین کو جو چاٹ رہے ہیں
اس گھاٹ رہے ہیں کبھی اس گھاٹ رہے ہیں
کرتے ہیں مراجع کی جو توہین مدبر
جس شاخ پہ بیٹھے ہیں وہی کاٹ رہے ہیں
اور ذکر شدہ مصرعوں کے علاوہ موصوف نے ایک جامع کلام بھی پیش کیا
اجتہاد و مرجعیت کے علمبردار ہیں
علم اہل بیت کے جو لوگ ورثہ دار ہیں
دین اہل بیت پر اب آنچ آ سکتی نہیں
شیعیت کے سارے علماء آہنی دیوار ہیں
ظلم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کرتے ہیں بات
قلب جن کے حب اہل بیت سے سرشار ہیں
ہم سر منبر بیان حق سے ہٹ سکتے نہیں
اسوہ حق البیانی میثم تمار ہیں
فکر باطل اور خرافاتی عقائد کے خلاف
ہم علی والے ہمیشہ برسر پیکار ہیں
ہیں علی مرتضی اللہ کے بندے مگر
جو سمجھتے ہیں خدا وہ لوگ اہل نار ہیں
اختلاف علمی و فکری مٹانے کے لیے
ہاں فقط فرمان اہل بیت ہی معیار ہیں
کوئی غالی کوئی مولائی ہے کوئی ماتمی
عشق کا دعوی مگر اعمال میں بیکار ہیں
ہوں زرارہ یا کہ بوزر یا ابا صلت و کمیل
درحقیقت یہ ہیں مولائی یہ ماتم دار ہیں
کر رہے ہیں من مطابق جو حدیثوں کو بیاں
بالیقین دوزخ کے ایسے لوگ ہی حقدار ہیں
اے مدبر ان سے اظہار برائت کیجئے
دہر میں جو حامل افکار ناہنجار ہیں
علمی نشست کے پہلے مقرر حجت الاسلام و المسلمین مولانا علی عباس خان نے نام نہاد اخباریت کے انحرافات" کے موضوع پر بہترین تقریر فرمائی مولانا کی تقریر کو بطورِ خلاصہ یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔مولانا موصوف نے اخباریت کو تین دور میں تقسیم کیا۔
پہلا دور : اصیل اخباری سے متعلق ہے جس کا آغاز تیسری صدی ہجری سے ہو کر پانچویں صدی ہجری میں اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔
دوسرا دور: مکتب اخباری سے متعلق ہے یہ دور تقریبا گیارہوں صدی ہجری کی شروعات سے شروع ہوکر بارہویں صدی ہجری کے اختتام پر ختم ہوجاتاہے۔
تیسرا دور : یہ دور تقریبا چودہویں صدی ہجری کے اختتام سے شروع ہوتا ہے اور آج بھی رائج ہے۔
اخباریت کے تینوں دور میں آپس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔قبلہ نے توضیح دیتے ہوئے فرمایا: اصیل اخباری کا دور وہ دور تھا جب اخبار اور احادیث پر توجہ دی جاتی تھی جو کہ جناب شیخ کلینی (رح)کے زمانہ سے شروع ہوا جب انہوں نے کتاب کافی لکھی۔ اس دور کے علماء کا جھکاؤ اخبار اور روایات کی جانب کافی تھا اسی لئے کتب اربعہ کی تالیف بھی اسی دور میں انجام پائی ہے اور اس دور میں جب احکام و مسائل شرعی بھی بیان کرناہوتا تو روایات کو ہی لاکر رکھ دیاجاتا تھا اس دور کو کسی صورت میں ہم اخباری و اصولی کا ٹکراؤ نہیں کہہ سکتے۔البتہ اخباری و اصولی کے ٹکراو کی اصطلاح چھٹی صدی ہجری میں نظر آتی ہے سب سے پہلے اس اصطلاح کا استعمال آقای شہرستانی اپنی کتاب "ملل و نحل" میں کرتے ہیں۔
جناب مولانا علی عباس خان؛ ملاامین استرآبادی کو مکتب اخباری کا بنیان گزار مانتے ہیں انکا کہنا ہے جب ملاامین استرآبادی نے کتاب "الفوائدالمدنیہ" لکھی اسی وقت سے مکتب اخباری تاسیس ہوا جس کے بعد سے دو مکتب اصولی و اخباری وجود میں آئے ان کی اس فکر سے اور دیگرعلماء بھی کافی حد تک متاثر ہوئے اورافراط کا شکار ہوکر اجتہاد و استنباط کو ناجائز قرار دے دیا۔
مولانا نے علامہ مجلسی کو ایک معتدل اور میانہ رو شخصیت بتائی کہ جنہوں نے کتاب شریف "بحارالانوار" لکھ کر عالم اسلام پر احسان کیا ہے۔قبلہ کے بقول مکتب اخباری کے جہاں کچھ نقصانات ہیں وہیں کچھ فوائد بھی پائے جاتے ہیں البتہ یہاں پر اخباریت سے مراد آج کی منحرف فکری کی اخباریت نہیں۔
مکتب اخباری (قدیم) کے چند فوائد:
1۔ اسی مکتب کی دین ہے کہ مجامع احادیثی پہر سے زندہ ہوگئی
2۔ تفاسیر روائی وجود میں آگئیں
3۔ مکتب اصولی مضبوط ہوا۔ کیوں کہ اصولیوں نے اخباریوں کے اشکالات کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے اپنے مکتب کو مضبوطی بخشی۔
اب رہ جاتی ہے "نام نہاد اخباریت" تو یہ اخباریت نہ اصیل اخباری ہے اور نہ تعمیرمکتب اخباری ہے بلکہ یہ تخریب مکتب اور تخریب مذہب کا نام ہے جہاں اس کے ماننے والوں نے بس اس لفظ کا سہارا لیا ہے تاکہ دین و مذہب کی تخریب کرسکیں۔
جناب مولانا کے نظریہ سے اس نام نہاد اخباریت کا حل صرف ایک ہے اور وہ ہے دین میں" تفقہ" یعنی فقیہ بنیے اور فقیہ بنائیے۔
مولانا علی عباس خان کی تقریر کے بعد نشست کے دوسرے شاعر محترم حجت الاسلام والمسلمین مولانا صادق ناصری نے اخباریت کے موضوع پر اپنا کلام کچھ اس طرح پیش کیا:
انحرافی فکر کا پرچار ہے اخباریت
غرب کا بکتا ہوا اخبار ہے اخباریت
کس طرح اسلام میں داخل ہوئے کچھ تو کہو
کون سا رستہ تمہیں ہموار ہے اخباریت
گلشنِ دینِ محمد گلشنِ اسلام میں
کیا گُلِ گلزار ہے یا خار ہے اخباریت
عالمِ اسلام کی دھرتی پہ جو تعمیر ہے
نا مناسب قلعہِ اشرار ہے اخباریت
مرجعِ كُل کی نظر سے نقش اس کا دیکھئے
دین میں اک فتنہِ أشرار ہے اخباریت
اس لیے بھی اس پہ ہم تکیہ نہیں کرتے کبھی
جانتے ہیں ریت کی دیوار ہے اخباریت
کل اُصولوں کے مقابل جو فقط اک دید تھی
آج استعمار کا ہتھیار ہے اخباریت
صاحبان عقل تو اس بات سے ہیں با خبر
آستیں میں پلنے والا مار ہے اخباریت
نا سمجھ ہیں ، جو سمجھ بیٹھے ہیں اِس کو جزوِ دیں
دین کی نظروں میں ننگ و عار ہے اخباریت
صاحبانِ علم کی روشن بصیرت کے سبب
مشکلوں سے ان دنوں دو چار ہے اخباریت
ایک مصرع میں سمیٹوں بات اپنی ناصری
منحرف افکار کی تکرار ہے اخباریت
مولانا ناصری کے منظوم کلام کے بعد اس نشست کے آخری مقرر حجت الاسلام والمسلمین مولانا ذاکر حسین طاہری نے "ملنگیت کے رائج خرافات" کے موضوع پر گفتگو کی۔
جناب طاہری نے ملنگیت کو فقدان بصیرت و معرفت کا نام دیا ہے جہاں انسان کے اندر محبت تو پائی جاتی ہے مگر معرفت و بصیرت سرےسے نہیں پائی جاتی۔
بقول مولانا طاہری : اس ملنگیت کے پیچھے جہل کار فرما ہوتا ہے۔ مولانا نے کہا:ملنگیت کوئی آج کے زمانہ کی دین نہیں ہے بلکہ یہ منحرف فکر ہر دور، ہر تاریخ و مذہب میں پائی گئی ہے۔
جب جب انسان صرف عقیدت و محبت کا اظہار کرے اور اس کے ساتھ معرفت، منطق، عقل و بصیرت نہ پائی جائے یہ ملنگیت ہے جو کسی بھی شخص، مکتب،مذہب، اور دین سے متعلق پائی جاسکتی ہے۔
ہمارے آئمہ معصومیں علیہم السلام نے اسی فکر اور مصیبت سے نکالنے کے لئے کیسے کیسے اقدامات کئے ہیں کاش ہم انکی طرف رجوع کریں تاکہ اس سے معاشرہ کو پاک و صاف کریں۔
مولانانے فرمایا: ملنگیت کے بہت سے نمونے پائے جاتے ہیں جس میں سے موصوف نے صرف ایک نمونہ کی طرف اشارہ کیا وہ یہ کہ زمانہ غیبت کبری میں کوئی بھی حکومت اسلامی نہیں بنا سکتا کیوں کہ غیرمعصوم کو حق نہیں ہے کہ حکومت اسلامی کا قیام کرے۔جب کہ واضح سی بات ہے کہ ایک شرابی کی حکومت سے بہتر ہے کہ دین کا عالم دین کا فقیہ حکومت کرے،مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے چونکہ ان کی نظر میں سیاست میں دین کا اور دین میں سیاست کا کوئی دخل نہیں ہے۔
مولانا نے اس طرح کے نمونوں کو بھی ملنگیت کا نام دیا ہے جو حقیقت میں نام نہاد اخباریت کی طرف ہی پلٹتی ہے۔بقول ذاکر طاہری: اگر اس طرح کی فکر سے نمٹنا ہے تو پہر ضروری ہے علمی گدائی کا کشکول توڑیں اور خود سے دین میں تفقہ پیدا کرنے کے تمام مراحل کو بخوبی انجام دیں اور قوم کو سلادینے والی سامری مزاج فکروں سے قوم کے جوانوں کو بچائے رکھیں۔
اس کے بعد سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع ہوا تقریباً آنلاین اور سامعین کی جانب سے کافی سوالات آۓ لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے مقررین صرف چند ہی سوالات کا جواب دے سکے۔
اس پروگرام میں کثیر تعداد میں علما و افاضل اور مومنین نے شرکت کی اور بہت ہی مفید بتاتے ہوۓ خواہش ظاہر کی کہ اسی موضوع پر ورکشاپ کی صورت میں مفصل پروگرام رکھا جاۓ۔ آخر میں ادارۂ العزم نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا اور اس نشست کا اختتام دعا فرج امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے ہوا۔